بھائی ہم تو کھری کھری کہتے ہیں آپ کو بری لگے تو مت پڈھو، کوئی زبردستی تو ہے نہیں.
بات کل رات ہے، ہم داڑھی بنوانے چوراہے تک گئے تھے، راستے میں آپ تبدیل چچا مل گئے، ہمیں دیکھتے ہی تپاک سے بولے اماں میاں تم کون سے والے صحافی ہو؟
ہم نے بھی سكپكاتے ہوئے پوچھا چچا کیا صحافیوں کی بھی كےٹگري ہوتی ہے جو آپ اےےسا الٹا سوال پوچھ رہے ہو، چچا نے پورے آرام سے گٹکھا چباتے ہوئے جواب دیا ہوتی ہے میاں، 4 طرح کے صحافی پائے جاتے ہیں ہمارے ہندوستان میں، اب آپ کو بتا تم کون سے والے ہو؟
ہماری تو سٹٹيپٹٹي گم ہو گئی، بتاو صحافیوں کی قسم بھی ہوتے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں، حد ہو گئی گزشتہ 17 سال کی صحافت ایک منٹ میں بیکار ثابت ہو گی، ہم نے بھی ٹھان لیا کہ اتنی آسانی سے ہار نہیں مانےگے، ہم نے بھی چچا پر بانسر ڈالتے ہوئے پوچھا کہ چچا آپ ہی بتا دو صحافیوں
کی كٹےگري کے بارے میں، ہمارے خیال سے تو صحافی صرف صحافی ہوتا ہے اس میں قسم نہیں ہوتے ہیں.
چچا چلائیں نے گٹکھا تھوکتے ہوئے کہا کہ تم نرے کوائف ہی رہو گے، صحافی چار قسم کے ہوتے ہیں، بگ، اسمال، منی اور نینو، بڑے صحافی وہ ہوتے ہیں جو فل ٹائم صحافی ہوتے ہیں، بڑے بڑے میڈیا ہاؤس میں نوکری کرتے ہیں یا اپنا خود کا میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں، بڑی گاڈيو میں گھومتے ہیں اور بروکریج، وصولی کے ساتھ ڈگگے کے اعلی ترتیبات رکھتے ہیں.
یہ اپنے کو خدا سمجھتے ہیں اور باقی سب کو حقیر، چار شاگرد جمع کر کے خود ہی اپنی گورو کہانی گاتے ہوئے آپ کو کسی بھی پارٹی، ہوٹل وغیرہ جگہوں پر مل جائیں گے. دوسری قسم میں آتے ہیں اسمال صحافی، ہوتے تو یہ بھی فل ٹائم صحافی ہے پر یہ تھوڑا ورکنگ ٹائپ کے ہوتے ہیں، چند ہزار کی نوکری میں مکمل زندگی گزار دیتے ہیں، صحافت کو سیریسلی لیتے ہیں اور قلم کے پکے ہوتے ہیں، ڈگگے کی چاہت تو ہوتی ہے پر کسی سے مطالبہ نہیں پاتے ہیں اس لئے ڈگگا يداكدا ہی مل پاتا ہے، اندر سے یہ کافی جلے پھكے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قلم بھی آگ اگلتي ہے.
اب آتے ہیں تیسری قسم پر؟
تیسری زمرے میں آتے ہیں منی صحافی، یہ کثرت میں پائے جاتے ہیں، بڑے صحافیوں کی چےلاگري کرنا ان کی خدمت کرنا یہ اپنا حتمی مذہب سمجھتے ہیں، فیلڈ میں کام یہ کرتے ہیں اور مزہ بگ صحافی اٹھاتے ہیں، کے نتیجے میں کمائی کا تھوڑا بہت حصہ ان کو بھی مل جاتا ہے. اسی میں یہ لوگ خوش رہتے ہیں.
صحافیوں کی چوتھی كٹےگري ہوتی ہے نینو صحافی.
یہ پارٹ ٹائم صحافی ہوتے ہیں جو صرف گاڑی پر پریس لکھ کر، پولیس والوں کو دھونس دے کر اور يداكدا کسی واقعہ حادثہ کی اطلاع آپ آفس میں دے کر خود کو صحافی کہلاتے ہیں، اکثر پیسے دے کر یا ہاتھ پاؤں جوڑ کر یہ کسی ادارے کا پرےسكارڈ حاصل کر لیتے ہیں اور مکمل رگباجي کے ساتھ صحافی بنے گھومتے ہیں. خبر لکھنے یا اخبار کے طریقہ کار سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے.
یہ سب سن کر ہمارے تو ہوش فاختہ ہو گئے. ہم نے پوچھا چچا یہ سب تم کو بتایا کس نے.
چچا بولے ارے اب تم پوری بات سنی کہاں ہے، اور بھی بہت سے خوردہ ٹائپ صحافی ہوتے ہیں جیسے محب وطن صحافی، زعفران صحافی، بائیں بازو صحافی، نکسلی صحافی، دلال صحافی اور جعلی صحافی وغیرہ وغیرہ.
اتنا سن کر ہمارا سر چکر کھانے لگا اور ہم چچا سے معافی مانگ کر داڑھی بنوائے بغیر گھر لوٹ آئے اور رات بھر سوچتے رہے کہ آخر ہم کس ٹائپ کے صحافی ہیں.
آپ کو مکمل واقعہ اس لئے بتا رہے ہیں کیونکہ بھائی ہم تو کھری کھری کہتے ہیں آپ کو بری لگے تو مت پڈھو، کوئی زبردستی تو ہے نہیں.
आपको यह ब्लॉग कैसा लगा, इस खबर के बारे मैं आपके क्या विचार हैं आप अपनी राय हमको ज़रूर दें !
بات کل رات ہے، ہم داڑھی بنوانے چوراہے تک گئے تھے، راستے میں آپ تبدیل چچا مل گئے، ہمیں دیکھتے ہی تپاک سے بولے اماں میاں تم کون سے والے صحافی ہو؟
ہم نے بھی سكپكاتے ہوئے پوچھا چچا کیا صحافیوں کی بھی كےٹگري ہوتی ہے جو آپ اےےسا الٹا سوال پوچھ رہے ہو، چچا نے پورے آرام سے گٹکھا چباتے ہوئے جواب دیا ہوتی ہے میاں، 4 طرح کے صحافی پائے جاتے ہیں ہمارے ہندوستان میں، اب آپ کو بتا تم کون سے والے ہو؟
ہماری تو سٹٹيپٹٹي گم ہو گئی، بتاو صحافیوں کی قسم بھی ہوتے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں، حد ہو گئی گزشتہ 17 سال کی صحافت ایک منٹ میں بیکار ثابت ہو گی، ہم نے بھی ٹھان لیا کہ اتنی آسانی سے ہار نہیں مانےگے، ہم نے بھی چچا پر بانسر ڈالتے ہوئے پوچھا کہ چچا آپ ہی بتا دو صحافیوں
کی كٹےگري کے بارے میں، ہمارے خیال سے تو صحافی صرف صحافی ہوتا ہے اس میں قسم نہیں ہوتے ہیں.
چچا چلائیں نے گٹکھا تھوکتے ہوئے کہا کہ تم نرے کوائف ہی رہو گے، صحافی چار قسم کے ہوتے ہیں، بگ، اسمال، منی اور نینو، بڑے صحافی وہ ہوتے ہیں جو فل ٹائم صحافی ہوتے ہیں، بڑے بڑے میڈیا ہاؤس میں نوکری کرتے ہیں یا اپنا خود کا میڈیا ہاؤس چلاتے ہیں، بڑی گاڈيو میں گھومتے ہیں اور بروکریج، وصولی کے ساتھ ڈگگے کے اعلی ترتیبات رکھتے ہیں.
یہ اپنے کو خدا سمجھتے ہیں اور باقی سب کو حقیر، چار شاگرد جمع کر کے خود ہی اپنی گورو کہانی گاتے ہوئے آپ کو کسی بھی پارٹی، ہوٹل وغیرہ جگہوں پر مل جائیں گے. دوسری قسم میں آتے ہیں اسمال صحافی، ہوتے تو یہ بھی فل ٹائم صحافی ہے پر یہ تھوڑا ورکنگ ٹائپ کے ہوتے ہیں، چند ہزار کی نوکری میں مکمل زندگی گزار دیتے ہیں، صحافت کو سیریسلی لیتے ہیں اور قلم کے پکے ہوتے ہیں، ڈگگے کی چاہت تو ہوتی ہے پر کسی سے مطالبہ نہیں پاتے ہیں اس لئے ڈگگا يداكدا ہی مل پاتا ہے، اندر سے یہ کافی جلے پھكے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قلم بھی آگ اگلتي ہے.
اب آتے ہیں تیسری قسم پر؟
تیسری زمرے میں آتے ہیں منی صحافی، یہ کثرت میں پائے جاتے ہیں، بڑے صحافیوں کی چےلاگري کرنا ان کی خدمت کرنا یہ اپنا حتمی مذہب سمجھتے ہیں، فیلڈ میں کام یہ کرتے ہیں اور مزہ بگ صحافی اٹھاتے ہیں، کے نتیجے میں کمائی کا تھوڑا بہت حصہ ان کو بھی مل جاتا ہے. اسی میں یہ لوگ خوش رہتے ہیں.
صحافیوں کی چوتھی كٹےگري ہوتی ہے نینو صحافی.
یہ پارٹ ٹائم صحافی ہوتے ہیں جو صرف گاڑی پر پریس لکھ کر، پولیس والوں کو دھونس دے کر اور يداكدا کسی واقعہ حادثہ کی اطلاع آپ آفس میں دے کر خود کو صحافی کہلاتے ہیں، اکثر پیسے دے کر یا ہاتھ پاؤں جوڑ کر یہ کسی ادارے کا پرےسكارڈ حاصل کر لیتے ہیں اور مکمل رگباجي کے ساتھ صحافی بنے گھومتے ہیں. خبر لکھنے یا اخبار کے طریقہ کار سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے.
یہ سب سن کر ہمارے تو ہوش فاختہ ہو گئے. ہم نے پوچھا چچا یہ سب تم کو بتایا کس نے.
چچا بولے ارے اب تم پوری بات سنی کہاں ہے، اور بھی بہت سے خوردہ ٹائپ صحافی ہوتے ہیں جیسے محب وطن صحافی، زعفران صحافی، بائیں بازو صحافی، نکسلی صحافی، دلال صحافی اور جعلی صحافی وغیرہ وغیرہ.
اتنا سن کر ہمارا سر چکر کھانے لگا اور ہم چچا سے معافی مانگ کر داڑھی بنوائے بغیر گھر لوٹ آئے اور رات بھر سوچتے رہے کہ آخر ہم کس ٹائپ کے صحافی ہیں.
آپ کو مکمل واقعہ اس لئے بتا رہے ہیں کیونکہ بھائی ہم تو کھری کھری کہتے ہیں آپ کو بری لگے تو مت پڈھو، کوئی زبردستی تو ہے نہیں.
आपको यह ब्लॉग कैसा लगा, इस खबर के बारे मैं आपके क्या विचार हैं आप अपनी राय हमको ज़रूर दें !
No comments:
Post a Comment
अगर आपको किसी खबर या कमेन्ट से शिकायत है तो हमको ज़रूर लिखें !